تازہ کتاب :
نئی کتابیں

نواب صدیق حسن خان قنوجی کے سوانح حیات پر ایک نظر

نواب صدیق حسن خان قنوجی کے سوانح حیات پر ایک نظر
14 ستمبر 2014.
محترم علامۃ الزمان، ترجمان حدیث و قرآن، علوم عربیہ کو زندہ کرنے والے، سارے ہند کے چاند، سید شریف صدیق حسن بن اولاد حسن بن اولاد علی حسینی، بخاری قنوجی، مشہور صفتوں کے مالک اور بہت زیادہ تالیفات والے تھے۔

سنہ ۱۲۴۸ھ ۱۹؍جمادی الاولیٰ اتوار کے دن شہر بانس بریلی میں اپنے نانا مفتی محمد عوض عثمانی بریلوی کے گھر پیدا ہوئے، پھر اپنی والدہ کے ہمراہ بریلی سے قنوج اپنے آبائی وطن تشریف لائے، جب آپ کی عمر چھ سال ہوئی تو آپ کے والد کا انتقال ہوگیا اس لئے یتیم اور فقیر ہوکر اپنی والدہ کی پرورش میں آگئے۔
تعلیم و تربیت
قرآن پاک اور فارسی زبان کے ابتدائی اور مختصر کتابیں علم صرف و نحو، بلاغت اور منطق اپنے بھائی احمد حسن بن اولاد حسن سے پڑھیں، اور چند مہینے فرخ آباد اور شہر کانپور میں اقامت کی، وہاں کے اساتذہ کرام سے علوم نحو، منطق، فقہ اور حدیث غیر مرتب ادھر ادھر سے پڑھیں اور علماء و شیوخ سے ملاقات کی۔ سید امام احمد بن عرفان شہید کے کچھ خلفاء اور ان کے ماننے والوں سے بھی ملاقات کی اور وہ لوگ آپ پر مہربانی کرتے تھے، کیونکہ آپ کے والد سید شہید کے ساتھیوں میں سے تھے۔
سنہ ۱۲۶۹ھ میں دہلی شہر تشریف لے گئے۔ مفتی صدرالدین خان نے جو صدرالصدور اور پورے دہلی میں سارے اساتذہ کرام کے صدر تھے آپ کی طرف خصوصی توجہ فرمائی، آپ کو اس گھر میں جگہ دی جو محترم فاضل نواب مصطفیٰ خان کا تھا، یہ گھر تمام علماء اور شعراء، فضلاء اور مشہور و محترم لوگوں کے لئے عام تھا خواہ وہ کسی حلقہ اور طبقہ سے تعلق رکھتے ہوں۔ چنانچہ آپ نے ان تمام لوگوں سے فائدہ اٹھایا اور سارے علوم و آداب و حسن محاضرۃ کو حاصل کیا۔ پھر مفتی صدرالدین صاحب سے ذمہ داری سے ساری درسی اور ضروری کتابیں سبقاً سبقاً پڑھیں۔
چنانچہ مختصر المعانی، شرح الوقایہ، ہدایہ الفقہ، توضیح و تلویح، سْلم العلوم اور اس کی شرحیں میبذی، صدر الشمس بازغۃ، میر زاہد اور اس کے حواشی، شرح مواقف، جامع صحیح بخاری کے چار پارے، قرآء ۃً اور باقی پارے سماعاً، تفسیر بیضاوی کی سورۃ بقرۃ، تحریر اقلیدس، عقائد نسفی، دیوان متنبی، مقامات حریری کے علاوہ دوسری مقررہ اور عام کتابیں پڑھیں جو کہ پڑھی جاتی ہیں۔
طلب رزق و تعلیم کے لئے سفر
اپنی عمر کے اکیسویں سال میں سند فراغت حاصل کی اور مفتی صدرالدین صاحب نے اپنی خاص اجازت اور علم حاصل کرنے کی خاص شہادت لکھ کر دی۔ 
پھر طلب رزق کے لیے آپ نے سفر کیا اور قدرت نے آپ کو ریاست بھوپال میں ٹہرایا چنانچہ وہاں کے وزیر جمال الدین صدیقی دہلوی نے اپنے نواسوں اور پوتوں کی تعلیم کے لئے مقرر کرلیا، مگر آپ نے تھوڑی سی فرصت میں کتب حدیث کے منتخب ابواب مثلاً: صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، سنن نسائی اور دراری مضیۂ جو علامہ شوکانی کی شرح درۃ البھیہ ہے، یہ ساری کتب قاضی زین العابدین بن محسن انصاری یمانی سے جو ریاست بھوپال میں ٹہرے ہوئے اور وہاں کے قاضی تھے ان سے پڑھیں، آپ کو آپ کے بڑے صنو، شیخ حسین بن محسن سبعی انصاری یمانی اور شیخ معمر عبدالحق بن فضل اللہ عثمانی نیوتنی سے اجازت حاصل ہوئی۔ 
آپ بھوپال ہی میں تھے اور آپ کے معاملات کچھ اس طرح کے تھے کہ آپ کو انہیں وزیر نے اس شہر سے نکال دیا اور دور کردیا، چنانچہ آپ ریاست ٹونک چلے آئے، سید زین العابدین بن سید احمد علی الشہید نصیر آبادی جو شہید سید احمد مجاہد غازی کی بہن کے بیٹے تھے، کے گھر سفر کی گٹھری کھول دی۔ اس لئے انہوں نے وزیر الدولہ سے سفارش کی جو اس علاقہ کے امیر تھے۔
چنانچہ انہوں نے آپ کے لئے ماہوار اسی روپے مقرر کردیئے۔ اس طرح ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ اللہ تعالی نے اسی وزیر کے دل میں نرمی اور مہربانی ڈال دی اور دوبارہ اپنے پاس بلالینے ہی میں مصلحت سمجھی، چنانچہ آپ ۱۲۷۶ھ میں ریاست بھوپال تشریف لے گئے اور لڑائیوں اور واقعات کے لکھنے کا آپ کو ذمہ دار مقرر کردیا، اور وزیر نے اپنی اسی بیٹی سے جس کے بیٹے آپ سے پڑھتے تھے کا نکاح کردیا۔
سنہ ۱۲۸۵ھ میں آپ نے حج کی نیت سے سفر کیا تو آپ اسی سال ماہ رمضان کی ۲۷؍تاریخ کو حدیدہ میں داخل ہوئے اور تیرہویں ذی القعدہ میں مکہ معظمہ میں داخل ہوئے اور مناسک حج سے فارغ ہوئے اور بقیہ وقت حدیدہ اور مکہ معظمہ میں فن حدیث کی نادر و نایاب کتابوں کے لکھنے پر معتکف جیسے رہنے لگے، اور منیٰ میں بھی اسی کتاب کے نقل کرنے میں مشغول رہے۔ اپنے خاص قلم سے بعض موٹی کتابوں کو بھی لکھا اور حدیث کی کچھ کتابوں کو جمع کیا اور سنت کی کچھ کتابیں یمن کے محدثین سے پڑھیں اور حدیث میں ان سے اجازت حاصل کی۔ شیخ یعقوب بن محمدافضل عمری مہاجر جو شیخ عبدالعزیز بن ولی اللہ دہلوی کے نواسے تھے ان سے خصوصی اجازت حاصل کی۔
پھر ریاست بھوپال تشریف لے آئے۔ سنہ ۱۲۸۶ھ میں نظارۃ المعارف کے عہدہ پر ذمہ دار ہوگئے۔ پھر نظارہ دیوان انشاء کے عہدہ پر سنہ ۱۲۸۷ھ کے ماہ شعبان کے شروع دنوں میں مقرر ہوئے، اور آپ کو خلعت دی اور خان بہادر کا لقب دیا۔
ملکہ بھوپال سے شادی
حکم عہدہ کے منصب کے لحاظ سے نواب شاہجہاں بیگم جو ریاست بھوپال کی ملکہ تھی آمد و رفت کیا کرتے تھے اور آپ ان ملکہ کے سامنے با ادب رہا کرتے تھے۔ اچانک اللہ تعالی نے ملکہ کے دل میں آپ کی محبت ڈال دی اس لئے اپنے آپ سے ان کو قریب تر کرلیا۔ اتفاق سے وہ شوہر کے بغیر تھیں، کیونکہ ان کے شوہر نواب باقی محمد خان چند برس پیشتر انتقال کرچکے تھے۔ اس وقت انگریزی حکومت نے آپ سے یہ اصرار کیا کہ ان سے شادی کرلیں تا کہ شوہر کی حیثیت سے آپ کے پاس رہیں اور حکومت اور ادارے کے کاموں میں آپ کی مدد کریں، پس ملکہ نے آپ کے نسب کی شرافت اور اخلاق کے درست ہونے کی پوری طرح معلومات کرلی اور شادی کرلی۔
سنہ ۱۲۸۷ھ میں معتمد المھام کا عہدہ دیا ور بہت ساری خراجی زمینیں آپ کو دیں جس کی قیمت پچاس ہزار روپے سے زائد سالانہ آپ کو ملتے تھے، اور حکومت برطانیہ نے جو ہندوستان پر حاکم تھے آپ کو قیمتی خلعت پہنائے اور لقب دیا۔
سنہ ۱۲۸۹ھ کے شعبان کے مہینہ کے بعد سے دس سال کے لیے نواب والا جاہ امیرالملک سیدمحمد صدیق حسن خان بہادر اور سارے ہندوستان کی لانبائی اور چوڑائی کے تمام علاقوں میں آپ کی تعظیم کرائی، اور یہ اعلان ستری توپیں چلا کرکیا اور بہت ہی قیمتی کپڑوں کا جوڑا دیا اور سلطان عبدالحمیدخان نے سنہ ۱۲۹۵ میں دوسرے درجہ کے مجیدی تمغے دیئے۔
حکومتی عہدوں سے معزولی
آپ انتہائی خوش اسلوبی اور اچھی حالت میں علم، مطالعہ کتب، تالیف اور تصنیف کتب میں مشغول رہتے، علم وعمل دونوں کی ریاست کو جمع کرتے کہ اچانک چغل خوروں نے چغلیاں کھائیں اتنی زیادہ اور اس طرح کہ آپ کا دل لرز گیا اور حال مشغول ہوگیا اور آپ پر برے حالات طاری ہوگئے اور انگریزی حکومت کے وکیل نے کینہ رکھتے ہوئے ہندوستانی حاکموں کے پاس شکایت کی اور آپ پر یہ الزام لگایا کہ آپ اپنی کچھ تصنیفات میں لوگوں کو جہاد پر آمادہ کرتے ہیں اور آپ اپنی جان و دل کی کوششوں وھابی مذہب کے پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں اور یہ وہ مذہب ہے کہ آپ کے ساتھیوں نے انگریز حکومت نے انگریزوں کی غداری پر آمادہ کردیا ہے اور یہ سمجھ لیا ہے کہ جہاد پر تمام لوگوں کو بھڑکا رہے ہیں اور یہ بھی الزام لگایا کہ آپ ہی نے شاہجہاں بیگم ملکہ بھوپال کو شرعی پردہ کرنے پر مجبور کردیا ہے تا کہ یہ ملکہ حکومت کے کاموں پر زیادہ جبر نہ کرسکیں، اور اپنے ہاتھ کو ان تمام معاملات پر دراز کرسکیں۔ 
ان کے علاوہ اور بھی دوسرے بہت سے الزمات لگائے، اس بناء پر انگریز حکومت نے از خود آپ کو جو عزت اور شرافت کے القاب دیئے تھے اور توپ داغ کر جو عزت افزائی کی تھی ان سب کو باطل قرار دیا، یہ واقعہ ۱۴؍ذی القعدہ سنہ ۱۳۰۲ھ میں پیش آیا اور دوسرے سال حکومتی معاملات کے نظم و نسق میں دخل دینے سے بالکل منع کردیا اور تمام لوگوں نے آپ سے اپنا منہ موڑلیا جس سے تمام دشمن خوش ہوگئے اور آپ انتہائی صبر کے ساتھ برداشت کرتے گئے۔ لیکن آپ کی بیگم جو تمام علاقوں کی امیر تھی اخلاص محبت وفاداری اور اتحاد کے ساتھ باقی رہیں اور ان تمام الزامات کی اپنے طور پر مدافعت کرتی اور ان تمام الزامات کو دور کرتی رہیں۔
مرض استسقاء
جب یہ واقعات پیش آئے اسی وقت استسقاء کی بیماری بھی لگ گئی اس طرح کی آخر اسی حالت میں آپ اللہ کو پیارے ہوگئے اور اللہ کا فیصلہ جاری ہوگیا، اور اب حکومت نے امارۃ کے لقب نواب کو سنہ ۱۳۰۷ھ میں لوٹا دیا جبکہ آپ دنیا کو چھوڑ کر رفیق اعلی سے ملاقات کرچکے تھے، جبکہ آپ کا مرض بڑھ چکا تھا اور علاج نے تھکا دیاتھا۔ بھول جانے اور بیہوشی کی حالت طاری ہوچکی تھی، لیکن آپ کی انگلیاں کچھ اس طرح کی حرکت کرتی دکھائی دیتی تھی کہ گویا آپ کچھ لکھ رہے ہیں۔
اُحِبُ لقاءَ اللہ
سنہ ۱۳۰۷ھ کا ماہ جمادی الاخریٰ ختم ہونے پر آیا اور آپ کا ذرہ افاقہ ہوا تو اپنے ساتھی شیخ ذوالفقار احمد مالوی سے مقالات الاحسان کے متعلق سوال کیا (کیونکہ یہی آپ کی آخری کتاب تھی جو شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالی کی کتاب فتوح الغیب کا ترجمہ ہے) کہ کیا یہ کتاب کسی کارخانہ سے چھپی ہے؟ تو کہا کہ وہ تو بازار میں آنے والی ہے اور شاید کہ آج کل کسی بھی دن یا رات کو بازار میں آجائے گی۔ تو اس بات پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور کہا یہ تو مہینہ کا آخری دن ہے اور وہ ہماری تالیفات کی آخری کتاب ہے۔ اس کے بعد جب آدھی رات گذر گئی تو آپ کی زبان سے قدرتی طور پر یہ کلمہ جاری ہوگیا: ’’اُحب لقاء اللہ‘‘، میں اللہ کی ملاقات پسند کرتا ہوں، یہ جملہ ایک دو مرتبہ ادا کئے، پھر پانی مانگا، اور پھر مرض آپ پر غالب آگیا، اور آپ کی آنکھ سے آنسو بہہ پڑے، یہ واقعہ ۲۹؍جمادی الاخریٰ سنہ ۱۳۰۷ھ کو پیش آیا جبکہ آپ کی عمر کے ۵۹ سال تین ماہ چھ دن ہوئے، آپ کے جنازہ میں بے شمارہ لوگ تھے اور تین بار آپ کے جنازہ کی نماز پڑھی گئی۔
وصیت
اس وقت انگریزی حکومت کی طرف سے یہ حکم اور اعلان جاری ہوچکا تھا کہ آپ کے جنازہ کو امراء اور ارکان دولت کے مطابق شان و شوکت کے ساتھ لے جایا جائے۔ جیسے کہ آپ کے پرانے بادشاہی القاب اور حکومت علامات باقی رہتے ہوئے کئے جاتے، لیکن آپ نے یہ وصیت کردی تھی کہ آپ کے جنازہ کو اہل سنت کے طریقہ پر دفن کیا جائے چنانچہ اس موقع پر آپ کی وصیت پوری کی گئی۔
علمی خدمات
آپ تمام تر حکومتی مشغولیتوں میں رہنے کے ساتھ مطالعہ کتب، قرآن پاک کی کتابت اور بے شمار و بے حد و حساب کتابوں کے جمع کرنے میں بہت مصروف تھے، آپ کی تصنیفیں اور مشہور تالیفیں جو تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، تاریخ اور ادب میں ہیں ایسا اتفاق بہت ہی کم علماء کے حصہ میں آیا ہے۔ 
آپ بہترین کتابت اور جلد لکھنے کے عادی تھے، آپ ایک ہی مجلس میں دو اجزاء باریکوں حرفوں میں بڑے صفحوں پر لکھ لیتے۔ لیکن آپ کی تالیفات ان چند چیزوں سے خالی نہیں ہوتیں، یا کتابوں کا اختصار یا تجرید یا ایک زبان سے دوسری زبان میں نقل کرنا، قاضی شوکانی ابن قیم، شیخ ابن تیمیہ حرانی اور ان جیسوں سے بھی زیادہ تیز نقل کرنے والے تھے، ان کے پسندیدہ مسائل کو سختی سے پکڑتے رہتے۔ آپ کو ائمہ فقہ اور تصوف سے سخت بدگمانی تھی بالخصوص امام ابوحنیفہؒ سے، اور سخت تعجب کی یہ بات ہے کہ اس کے باوجود احناف ہی کے طریقہ پر نماز ادا کرتے تھے چنانچہ آپ تکبیر تحریمہ کے سوا جیسا کہ دوسرے ائمہ کرتے ہیں رفع یدین نہیں کرتے تھے، اور آمین کو بھی فاتحہ کے بعد جہر کے ساتھ ادا نہیں کرتے، اپنے ہاتھ کو اپنے سینے پر نہیں باندھتے، ہاں ایک ہی رکعت کا وتر کرتے، اور تراویح میں آٹھ رکعتیں پڑھتے۔
رہن سہن اور وضع قطع
آپ انتہائی درجہ میں ذہن کے صاف، سمجھ کے تیز، میٹھی تقریر، اچھی تحریر، شرافت طبع، اخلاق کے عمدہ، خوش نظر اور خبر پانے کے کامل تھے، آپ اتنے زیادہ باحیاء اور تواضع والے تھے کہ دوسرا کوئی بھی ان باتوں میں آپ کے برابر نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ باتیں اسی شخص میں پائی جاسکتی ہیں جو آپ کے ساتھ اٹھا بیٹھا ہو، کیونکہ آپ تو خود کو بالکل عام آدمیوں کے برابر سمجھتے اور رکھتے، یہ تو وہ خصوصیتیں ہیں جو اللہ تعالی نے صرف آپ ہی میں رکھی تھیں، اور ان ہی باتوں سے آپ کی عزت فرمائی تھی، کیونکہ بڑی شرافت کے ساتھ تواضع کے ساتھ پیش آنا زیادہ پسندیدہ بات ہے تکبر کے ساتھ عزت افزائی سے۔ پھر آپ کے اندر حسن اخلاق کا حصہ پورا پورا بڑھا ہواتھا، بہت ہی کم انسان ایسے ملتے ہیں جو آپ کے برابر حسن خلق رکھتے ہوں جبکہ چھوٹے انسان بھی آپ کے ساتھ آپ کی خدمت میں لگے رہے ہوں اور اللہ سبحانہ و تعالی نے جو سب سے بڑی خصوصیت آپ کے اندر رکھی تھی وہ علماء ربانیین کی محبت، اور بڑے عمدہ اوصاف کی طرف آپ کا میلان تھا اسی بناء پر ان باتوں کی اطلاع اور ان کے آثار سے تبرک حاصل کیا جاتا تھا۔
استغفار پر التزام
آپ کو شیخ فضل الرحمن بن اہل اللہ بکری مراد آبادی سے بہت زیادہ لگاؤ تھا اور محبت تھی خیریت کے ساتھ ہی آپ کو ہمیشہ یاد فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ وہ علماء ربانیین میں سے ایک ہیں۔ اس زمانہ میں آپ کے برابر کوئی بھی نہیں تھا جو کہ زاہد بھی ہو اور لوگوں سے مستغنی بھی ہو، اسی لئے آپ کو بھوپال بھیجا گیا تا کہ آپ ان کی بیعت کرسکیں لیکن شیخ نے وہاں داخل ہونے سے ہی انکار کردیا اور آپ کے پاس اپنا عمامہ بھیج دیا اور آپ کے لیے برکت اور حسن خاتمہ کی دعا فرمائی اور یہ وصیت فرمائی کہ ہمیشہ ہی استغفار فرماتے رہیں، چنانچہ آپ نے ایک تسبیح لی اور استغفار کو ہمیشہ کے لیے اپنے اوپر لازم کرلیا یہاں تک کہ ساری رات اور سارا دن اسی میں مشغول رہتے۔
ایک مرتبہ آپ کے لڑکے ہمارے فی سبیل اللہ بھائی نورالحسن عفاللہ عنہ سے سنا ہے وہ فرماتے تھے کہ پہلی مرتبہ جب میں نے آپ کے ہاتھ میں تسبیح دیکھی تو مجھے زیادہ تعجب ہوا اور میرے سوال پر آپ نے فرمایا کہ جب سے میرے شیخ نے مجھے فرمایا ہے میں نے خود پر استغفار لازم کرلیا ہے، شیخ کے پاس انفاس سے یہ بڑی کرامت ظاہر ہوئی کہ استغفار کی روشنیاں آپ پر ظاہر ہوئیں اور آہستہ آہستہ وہ بڑھتی رہیں یہاں تک کہ میں نے کہا یہ آپ کی برائیاں ہیں جو آپ کی آخری عمر میں ہیں اور آپ کے چمکدار حالات ہیں جو آپ پر غالب آرہے ہیں اور پھر یہی ہوتا رہا ہے یہاں تک کہ آپ کو پہلے آئمہ فقہ اور فن تصوف سے جو بدگمانی تھی اس سے اللہ تعالی نے توبہ کی توفیق فرمادی۔
اور آپ نے اپنی آخری عمر میں مقالات احسان اور مقامات عرفان میں ایک کتاب لکھ ڈالی جو حقیقت میں شیخ امام عبدالقادر جیلانی کی کتاب فتوح الغیب کا ترجمہ ہے اور یہ کتاب آپ کی آخری تصنیف ہے پھر آپ نے اسے پریس میں بھیج دیا چنانچہ وہ چھپ کر بازار میں آگئی اور جس رات اللہ تعالی نے آپ کو وفات دی اسی رات شروع میں آپ کے پاس پہنچ چکی تھی، ان تمام باتوں باتوں کے متعلق مجھے آپ کے ساتھی سید ذوالفقار احمد حسینی مالوی نے اطلاع دی۔
ادائیگی فرائض اور معمولات
آپ تمام نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کے عادی تھے اور وقت کے پہلے ہی حصہ میں نمازوں کو ادا فرماتے، اسی طرح ہر سال زکوۃ بھی ادا کیا کرتے تھے، بسا اوقات آپ کے مالوں کی زکاۃ ہزاروں روپے کی مقدار کو پہنچ جاتی تھی۔ بہت زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ درود بھیجتے رہتے تھے۔ اسی طرح ماثورہ دعائیں بھی ان کے اوقات میں ادا کرتے رہتے۔ اپنے مالوں کے بارے میں آپ بہت پرہیزگار تھے، جس مال کا لینا آپ کے لئے حلال نہیں ہوتا یا جس کے بارے میں بھی آپ کو شک ہوتا اسے قبول نہیں فرماتے۔ 
آپ کے چہرہ ہر ہمیشہ مسکراہٹ ہوتی، میٹھی گفتگو فرماتے، کم گفتگو کرنے والے، آپ ظالم نہ تھے اور نہ ہی منہ بگاڑ کر رکھتے تھے۔ بہت زیادہ بردبار اور کم غصہ والے تھے، پاک زبان تھے اور اپنی ذات کے لئے آپ کسی چیز کی فرمائش نہیں کرتے۔ ہمیشہ کتابوں کے مطالعہ اور تالیف کی فکر میں مشغول رہتے یہاں تک کہ آپ بعض اوقات مختلف کھانوں کے درمیان فرق نہیں کرپاتے، ان کے اپنے زمانہ کے لئے انصاف کو پسند کرتے اور بسا اوقات وہ جو آپ کے مخالف تھے وہ بھی آپ کی فضیلت پہانتے۔
علم کا آفتاب 
آپ کے صاحبزادے سید علی حسن خان فرماتے تھے کہ جب آپ کو علامہ عبدالحی بن عبدالحلیم لکھنوی کی وفات کی خبر معلوم ہوئی (اس وقت آپ حضرات کے درمیان مناظرات اور مباحثات علمی جاری تھی اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کے خلاف کتابیں اور رسالے لکھ رہتے تھے) اس وقت آپ نے اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھا اور تھوڑی دیر کے لئے اپنا سر جھکا دیا پھر اپنا سر اٹھایا، آپ کی آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی تھیں، اور آپ شیخ عبدالحی صاحب کے لئے دعاء خیر فرماتے تھے اور رحم کی دعائیں کرتے۔ پھر آپ نے فرمایا آج علم کا آفتاب ڈوب گیا ہے اور فرمایا کہ ہمارے درمیان جو کچھ اختلافات تھے وہ صرف بعض مسائل کی تحقیق کے سلسلہ میں تھے۔ پھر آپ نے غائبانہ نماز جنازہ کے لئے اعلان کر فرمایا۔
آپ اہل علم کی تعظیم کرنے والے اور نادر و نایاب کتابوں کی طرف بہت توجہ فرماتے، اور موجودہ کتابوں اور اسلاف کی کتابوں کی اشاعت کا بہت زیادہ خیال رکھتے۔ ان ضرورتوں کے لئے آپ نے بے شمار دولت خرچ کی، چنانچہ تفسیر ابن کثیر کے ساتھ فتح البیان، ابن حجر عسقلانی کی فتح الباری کی طباعت کا حکم دیا اور اس کے نسخہ کو الحدیدہ سے خریدا جو ابن علان کے قلم کا تھا، اور اسی کی طباعت بولان کے مطبع مصر میں کی تھی۔ اس کے طباعت کے لئے آپ نے پچاس ہزار روپے عطا کئے پھر اہل علم اور فن حدیث سے تعلق رکھنے والوں کو جو ہندوستان میں ہوں یا اس سے بھی باہر، ہدیہ کے طور پر دینے کا حکم فرمایا تھا۔ جب آپ حج سے واپس تشریف لارہے تھے ایسے زمانہ میں کہ سمندر اپنی طغیانی پر اور جہاز بہت زیادہ حرکت میں ادھر ادھر ہورہا تھا، سنن دارمی کو نقل کروا کر لارہے تھے۔
معمولات یومیہ
آپ فجر سے قبل نیند سے بیدار ہوتے پھر نمازیں پڑھتے۔ جب آپ نمازوں سے فارغ ہوتے تو تلاوت قرآن پاک میں مشغول ہوجاتے اور دعائیں، اذکار، جزریؒ کی حصن حصین کے کچھ حصے تلاوت فرماتے یہاں تک کہ جب آفتاب بلند ہوجا تا تو شہری حکومت کی خبریں سنتے اور اپنے ادارہ کے طلبہ کی باتیں تھوڑی دیر کے لئے سنتے۔ پھر تالیف اور مطالعہ کتب میں ایک سیکنڈ بھی ضائع کئے بغیر لگ جاتے، یہاں تک کہ دو پہر ہوجاتی، پھر ظہر کی نماز پڑھ لیتے، پھر دو پہر کا کھانا کھالینے کے بعد تھوڑی دیر کے لئے لیٹ جاتے اور مغرب تک ادارہ سے متعلق کام کرتے اور کبھی مغرب تک تفریح کے لئے نکلتے اور تھوڑی دیر تفریح کرلیتے۔ پھر مغرب کی نماز پڑھتے اور ان اہم خبروں کو سنتے جن کو اخبار کے بعض مقالے اور اخباروں نے ٹیلیگرام اور دوسرے ذرائع سے جمع کرکے رکھا ہو۔ پھر قرآن کریم و سنت کی کتابوں سے کسی کتاب کا سبق دیتے اور جس کو کچھ ان کے اپنے بیٹے اور خاص طلبہ سنتے۔ اس مجلس میں کچھ شعراء اور ادباء بھی شریک ہوتے، اور شعر و ادب کے بارے میں آپ سے گفتگو کرتے، اور کچھ اشعاری لطیفے اور ادبی نکتے بیان فرماتے، پھر عشاء کی نماز پڑھتے، اور سونے اور آرام میں مشغول ہوجاتے۔
حلیہ شریف
جسمانی لحاظ سے درمیانہ قد، نمکین رنگ جس میں سپیدی غالب ہوتی، ابھری ہوئی پیشانی، تنگ نتھنے، ابھری ناک، چوڑی پیشانی، لمبے چہرے، حیاء دار چوڑے مونڈھے والے اور چھوٹی ڈاڑھی والے تھے۔
تصانیف
آپ کی تصنیفات تقریباً دو سو بائیس تھیں اگر ان کے ساتھ کچھ دوسرے پرچے بھی ملا لئے جائے تو تین سو تک ہوجاتیں۔ آپ کی تمام تصنیفات میں سب سے مشہور اور افضل فتح البیان، عون الباری، سراج الوھاج، حضرات التجلی، التاج المکلل، المسک الختام، نیل المرام، اکلیل الکرامۃ، حصول المامول، ذخر المجتبی، روضہ الندیہ، ظفر اللاضی، نزل الابرار، افادۃ الشیوخ، بدور الاھلہ، التقصار، حجج الکرامۃ، دلیل الطالب، ریاض المرتاض، ضوء الشمس، خرۃ الخیر، لسان العرفان، الدر البھیہ، انتقاد الحطۃ، رسالۃ ذم، علم الکلام، الاربعین فی الاخبار المتواترۃ، المعتقد المنقد، اجوبہ بعض اسولۃ، الاعلام، رسالۃ الاحتواء، رسالۃ الناسخ و المنسوخ، اتحاف النبلاء۔
ان کتابوں کے بعد بھی چند اور کتابیں آپ نے تحریر فرمائی ہیں جن میں سے سب سے اہم کتاب ابجد العلوم ہے جو تین جلدوں میں ہے۔ ان کے علاوہ آپ کی دوسری تصنیفات بھی ہیں جن کے ناموں کو آپ کے صاحبزادہ سید نورالحسن نے مقدمہ کتاب نیل المرام میں لکھا ہے اور آپ کے صاحبزادہ علی حسن نے اپنے والد کی سیرت کے بارے میں اکٹھا کیا ہے اور جس کا نام ماثر صدیقی رکھا ہے۔
نزہۃ الخواطر
اردو ترجمہ (آٹھویں جلد)

ال رنگ کی جگہ اپنے بلاگ کا یو آر ایل لکھیں

لال رنگ کی جگہ اپنے بلاگ کا یو آر ایل لکھیں

اگر نتیجہ والے صفحہ پر آپ کے بلاگ کی کوئی نہ کوئی تحریر نظر آئے تو سمجھ لیں کہ آپ کا بلاگ سرچ انجن میں انڈیکس ہو چکا ہے۔ اگر ایک بھی نتیجہ نظر نہ آئے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سرچ انجن نے ابھی آپ کے بلاگ کو انڈیکس نہیں کیا ہے۔

اپنے بلاگ کو سرچ انجن میں انڈیکس کرنے کے کئی طریقے ہیں ، مثلاً
  • ویب ڈائرکٹریز میں اپنے بلاگ کو شامل کرنا
  • اپنے بلاگ پر گوگل سائیٹ میپ کو شامل کرنا
دو آسان طریقے یہ بھی ہیں
  • یہاں جائیں اور ٹکسٹ بکس میں اپنے بلاگ کا یو آر ایل لکھ کر سبمٹ کر دیں
    Add your blog to Blog Search
  • اگر آپ کے کسی دوست یا واقفکار کے بلاگ کا پیج رینک 3 یا 4 ہو تو اسے کہیں کہ اپنے بلاگ پر کسی بھی جگہ آپ کے بلاگ کا لنک ایک آدھ ہفتہ کیلئے لگائے ، چاہے بعد میں ہٹا دے۔
اس طرح سرچ انجنز میں آپ کے بلاگ کا مواد شامل ہو جائے گا۔

تازاہ ترین پوسٹ

السلام علیکم!
جب بھی آپ کسی بلاگ سپاٹ کے بلاگ میں کوئی نیا ویجیٹ / گیجٹ شامل کرتے ہیں تو وہ بائے ڈیفالٹ سرورق سمیت بلاگ کے ہر صفحے پہ ظاہر ہوتا ہے۔بعض اوقات اسے صرف فرنٹ پیج پہ ہی دیکھانا مقصود ہوتا ہے اور بعض اوقات فرنٹ پیج پہ اس کی ضرورت نہیں ہوتی اور اسے پوسٹ پیج،کسی خاص پیج پی ہی دیکھانا مقصودہوتا ہے۔
گوگل کے اشتہارات کسی بلاگ پہ لگانے کے لئے بھی گیجٹ کا استعمال ہوتا ہے۔شائید آپ کے علم میں ہوکہ کونٹیکٹ پیج اور پرائیویسی پالیسی پیج پر گوگل اشتہارات لگانے سے گوگل آپ کا اکاؤنٹ بلاک کرسکتا ہے۔اس سے بچنے کے لئے بھی آپ کو اس کوڈنگ کی ضرورت ہو گی تو آئیے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسا کس طرح ممکن ہے۔

1-بلاگر کے ڈیش بورڈ میں جائیں۔بائیں جانب مینیو میں لے آؤٹ پہ کلک کریں۔اپنی مرضی کا کوئی بھی گیجٹ ایڈ کریں یا پہلے سے ایڈ شدہ کسی گیجٹ کا انتخاب کرکے اس کا کوئی ٹائٹل نام رکھیں لیں تاکہ کوڈنگ کے دوران آپ کو یہ گیجٹ ڈھونڈنے میں آسانی رہے یاد رہے کے مطلوبہ گیجٹ کا ٹائٹل منفرد رکھیں جو کسی دوسرے گیجٹ کا ٹائٹل نہ ہو۔

2-اگلے مرحلے میں دائیں جانب میں ٹیمپلیٹ کا انتخاب کریں اور ایڈیٹ ایچ ٹی ایم ایل پہ کلک کریں
bb1.png: نام
100: مشاہدات
13.8 کلوبائٹ: سائز

ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ

ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بعض علماء و مشائخ نے اوائل عمر میں علم دانی کے جوش میں آکر تصوف کی ضرور مخالفت کی لیکن بعد میں ان کو حقیقت سے آگاہی ہوئی تو نہ صرف تصوف کو عین اسلام ثابت کیا بلکہ اس پر عمل پیرا ہو کر مراتب قرب یعنی فنا فی اللہ اور بقا با للہ تک رسائی حاصل کی. ان حضرات میں مولانا جلال الدین رومی، حضرت امام غزالی ،حضرت امام احمد بن حنبل ،حافظ ابن قیم جو امام ابن تیمیہ کے شاگرد ہیں اور خود امام ابن تیمیہ ،ابن جوزی،قاضی شوکانی یمنی ،شاہ اسماعیل شہید اور علمائے دیوبند شامل ہیں. ان حضرت نے ابتدائی عمر میں تصوف کی مخالفت کی لیکن آخر حقیقت حال سے آگاہ ہونے اور پھر تصوف کی حمایت میں کتابیں لکھیں . لیکن افسوس ہے کہ ظاہر بین حضرات ان بزرگوں کی اوائل عمر کی تصانیف کا مطالعہ تو کرتے ہیں لیکن اواخر عمر کی تصانیف پڑھنے کی تکلیف گوارہ نہیں کرتے. مثال کے طور پر ابن جوزی تصوف کے شدید ترین مخالف سمجھے جاتے ہیں اور تصوف کی مخالفت میں ان کی ابتدائی کتاب"تلبیس ابلیس" پیش کی جاتی ہے لیکن ان کی آخری عمر کی کتاب" صفوة الصفوۂ" کو کوئی نہیں دیکھتا جس میں تصوف کی حمایت کی گئی ہے. اسی طرح حافظ ابن قیم کی سابقہ عمر کی کتابوں کو دیکھا جاتا ہے لیکن آخری عمر کی کتب "الفوائد" ،"مدارج السالکین" اور"کتاب الروح" کو کوئی نہیں دیکھتا . اسی طرح شاہ اسماعیل شہید کی ابتدائی کتاب" تقویة الایمان " کو مخالفین تصوف پیش کرتے ہیں ،لیکن انکی آخری عمر کی کتاب "صراط مستقیم" اور"عبقات" کو نظر انداز کرتے ہیں. جو علم اور وحدت الوجود سے لبریز ہیں. اسی طرح امام ابن تیمیہ کی اوائل عمرکی کتابوں میں اگرچہ تصوف کی مخالفت ہے آخری عمر کی کتابوں میں آپ نے مقدمین صوفیاء کی تائید اور تعریف فرمائی ہے.
نیز یہ بات بھی اب پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ امام ابن تیمیہ سلسلہ قادریہ سے منسلک تھے اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے ایک خلیفہ کے مرید تھے. جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے.ڈاکٹر ماجد عرسان الکیلانی حضرت جیلانی کے بارے میں امام ابن تیمیہ کے خیالات اس طرح لکھتے ہیں :۔ ابن تیمیہؒ نے الفتویٰ کے حصہ"التصوف و علم السلوک " میں شیخ عبدالقا در جیلانیؒ کے اس طریق کار کو بیان کیا ہے جس میں آپ نے قرآن و سنت میں وارد اصولوں اور تعلیمی منہاج میں تزکیہ نفس کو لازم قرار دیا گیا ہے (الفتویٰ مذکورہ)آپ(حضرت عبدالقادر جیلانی ؒ) نے تصوف میں پیدا ہونے والے فکری و مشقی انحرافات کو تنقید کا نشانہ بنایا اور پھر اسے اصل کآم یعنی مکتب تربیت کی طرف لوٹا دیا جس کا بنیادی مقصد تجرد خالص اور زہد صحیح کا بیج بونا تھا. اس میدان میں آپ کے افکار کا خلاصہ آپ کی دو کتابوں" الغنیہ الطالبین طریق الحق" اور"فتح الغیب" میں موجود ہے. دوسری کتاب کو ابن تیمیہ نے شرح کے ساتھ اپنی کتاب الفتویٰ کے حصہ دھم میں "کتاب السلوک "کے نام سے شامل کیا ہے اور اسے ایسے زہد کے نمونے کے طور پر پیش کیا ہے جس پر قرآن کریم اور سنت شریفہ نے زور دیا
اب ہم اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ امت کی زبردست اکثریت تصوف یعنی مسلک اولیاءاللہ کی حامی ہے اور چند لوگ اس کی مخالفت کرتے آے ہیں . مثلاّ اہل سنت و الجماعت جس میں امام ابو حنیفہ ، امام مالک،امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے پیروکار شامل ہیں .مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت ہے اور نبی کریم ﷺ نے اس حدیث کی رو سے مسلمانوں کو اس جماعت میں شامل ہونے کا حکم فرمایا ہے" سواد آعظم مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت میں شامل ہو جاؤ،کیونکہ میری امت ہرگز گمراہی پر متفق نہیں ہو سکتی "
یاد رہے کہ یہ چاروں امام صوفی مشرب رکھتے تھے -اور اپنے زمانے کے اولیاء کرام سے روحانی فیوض حاصل کرتے تھے .مثلاّ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ،حضرت امام جعفر صادق ؒکے صادق العقیدہ مرید تھے .اسی طرح امام شافعیؒ مشہور صوفی بزرگ حضرت فضیل بن عیاض ؒکے معتقد اور فیض یافتہ تھے. حضرت امام احمد بن حنبل ؒبغداد کے صوفی حضرت بشر حافی ؒکے عقیدت مند اور صحبت یافتہ تھے ،یہاں تک کہ جب کوئی آپ سے شریعت کے مسائل دریافت کرتا تو خود بتاتے تھے،لیکن طریقت کے مسائل دریافت کرنے کے لیے آپ لوگوں کو حضرت بشر حافی کی خدمت میں بھیج دیتے.یہ کہہ کر کہ مجھے خدا کے احکام کا علم ہے لیکن بشر حافی کو خدا تعالیٰ کا علم حاصل ہے . اسی طرح امام مالک بھی صوفی تھے.
طالب حسین سیال اس میں یہ اضافہ کرتے ہیں کہ حضرت امام ابو یوسف ،پیر طریقت حضرت حاتم اصم کے مرید تھے. اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فقہاء و علماء اس دور کی معاشرتی مذہبی روایت کا پاس کرتے ہونے کسی با شرع شیخ طریقت کی بیعت تو کر لیتے تھے لیکن ایسے شواہد نہیں ملتے کہ وہ اطاعت شیخ کا اس قدر التزام رکھتے جیسا کہ صوفیہ کا شعار تھا .طریقت کے دلدادہ سالکین عقیدت شیخ میں مستغرق رہتے اور مرشد کی غیر مشروط ا طاعت کرتے تھے وہ شیخ کی تعظیم میں حد درجہ احتیاط سے کا م لیتے تھے.امام قشیری اپنے شیخ ابو علی الدقاق کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب کبھی و اپنے شیخ نصر آبادی کے پاس جاتے تو پہلے غسل کرتے پھر انکی مجلس میں جاتے.(قشیری خود اس معاملہ میں بہت محتاط تھے۔
اہل سنت و الجماعت کے ان چاروں ائمہ کرام کی تصوف دوستی کی وجہ سے آج تک ان کے پیروکار اولیائے اسلام کے گرویدہ ہیں. اور ان کے مسلک پر قا ئم ہیں . آج کل بر صغیر ہند و پاک میں یہ جو بریلوی ،دیوبندی اختلاف پایا جاتا ہے، اکثر لوگ اس حقیقت سے نہ واقف ہیں کہ یہ دونوں فرقے اہل سنت و الجماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں بنیادی طور پر تصوف کے حامی ہیں. اس وقت جو حضرات تصوف کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں وہ اپنے آپ کو غیر مقلد یا اہل حدیث کہتے ہیں . حالانکہ ان کے اکابر مثل امام ابن تیمیہ ،حافظ ابن قیم اور قاضی شوکانی تصوف کے خلاف نہیں تھے بلکہ ان صوفیوں کے خلا ف تھے جن کی حرکات اور عملیات اسلام کے خلاف تھیں ۔
رسالہ" سہروردیہ لاہور" سلسلہ ٨ میں ایک تحقیقی مقالہ شائع ہوا ہے جس میں مختلف یورپی مصنفین نے تاریخی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ حضرت امام ابن تیمیہ جو حنبلی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے. حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے مرید حضرت ابن قدامہ کے فرزند اور خلیفہ ابن عمر قدامہ کے مرید تھے.
اس مقالہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ چیرٹی لائبریری ڈبلن میں ایک مخطوطہ موجود ہے جس میں حضرت امام ابن تیمیہ کا شجرہ طریقت درج ہے اس کتاب کا نام ہے "ترغیب المتحابین" مصنفہ جمال الدین الطیلیلا ئی ،اس کتاب میں امام ابن تیمیہ کا یہ قول بھی درج ہے کہ."مجھے سیدنا عبدالقادر الجیلانی کابا برکت خرقه تصوف نصیب ہوا اور میرے اور انکے درمیان دو صوفی مرشد تھے"
حضرت امام ابن تیمیہ کے شاگرد اور مرید حافظ ابن قیم ابن جوزی کی تصانیف میں تصوف کا رنگ غالب ہے. بلکہ انہوں نے مشہور (حنبلی)صوفی بزرگ حضرت شیخ عبداللہ۔ انصاری ہروی کی کتاب"منازل السائیرین" کی صوفیانہ انداز میں شرح بھی لکھی ہے جس کا نام"مدارج السالکین" رکھا ہے. اس کے علاوہ ان کی" کتاب الفوائد" اور"کتاب الروح" بھی مسائل تصوف سے لبریز ہے.
حوالہ جات:١۔کپتان واحد بخش سیال--حیات و تعیلمات حضرت خواجہ غلام فرید.
٢۔ڈاکٹر محمد ماجد عرسان الکیلانی -- عہد ایوبی کی نسل نو اور القدس کی بازیابی - مترجم صاحبزادہ محمّدعبدالرسول
٣-طالب حسین سیال -سہ ماہی فکرو نظر- جولائی- ستمب

مسلک اہلحدیث اورتصوف واحسان

مسلک اہلحدیث اورتصوف واحسان​​
علم تصوف وسلوک ایک حقیت ہے ،اور کسی بھی حقیقت سے کوئی بھی منصف مزاج اور سلیم الفطرت شحص انکار نہیں کر سکتا۔علم سلوک کی اہمیت وافادیت اس قدر مسلمہ ہے کہ امت میں بڑے بڑے نامور لوگوں نے اسکو احتیار کیا ہے،اور اس دور سے پہلے امت میں کوئی ایسا گروہ پیدا نہیں ہوا ،جو مطلق تصوف کا انکاری ہو،مگر اس قحط الرجال کے دور میں ایسے ناعاقبت اندیش لوگ موجود ہیں جو نہ صرف علم سلوک سےانکاری ہیں بلکہ ان مقدس ہستیوں کوبرا بھلا کہنے سے بھی نہیں چونکتے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جس چیز کی جتنی زیادہ اہمیت ہوتی ہے،وہ شئے اتنی ہی نایاب ،اور اسکی نقل بھی اتنی ہی عام ہوتی ہے،تصوف وسلوک کے معاملہ میں بھی یہی کچھ ہو۔ یہ جتنی نایاب اور عظیم دو لت تھی،اتنی ہی اسکی نقل بھی تیار ہوئی،اس لیے ہر عہد میں جہاں علماء نے تصوف وسلوک کی اہمیت و افادیت کو واضح کیا،وہاں پر تصوف و سلوک کے نام پر پیدا ہونے والی بدعات وخرافات کا بھی سختی سے رد کیا۔
تصوف اسلامی کی اصل دشمن غیر مسلم قوتیں ہیں جو کہ اس بات کو اچھی طرح جانتی ہیں،کہ اگر تصوف اسلامی عالم اسلام میں رائج ہو گیا تو پھر یہ سویا ہوا شیر بیدار ہو جائے گا،اس لیے باقاعدہ جس طرح نقلی علماء تیار ہوئے،بالکل اسی طرح نقلی صوفیاء بھی تیار ہوئے،اور پھر انکےمقابلے میں ایسے لوگ کھڑے ہوئے ، جو اصل اور نقل میں فرق نہیں کر سکتے تھے،پھر ایسے نا معقول لوگ بلا دھڑک تصوف اسلامی پر بھی لعن طعن کرتے ہیں،اور یوں تصوف اسلامی کو عوام ں پنپنے سے روکنے کی لاحاصل سعی کرتے ہیں۔
مسلک اہلحدیث اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے اس پراوپگنڈے کا سب سے زیادہ شکار ہوا،اور اس عہد کی نئی پود تونہ صرف تصوف سلوک سے نابلد ہے،بلکہ تصوف اسلامی کی سخت مخالف بھی ہے،اور افسوس یہ ہے کہ یہ مخالفت کوئی علمی بنیادوں پر نہیں بلکہ کھلی جہالت اور ضد پر ہے،ورنہ اس عہد میں جسے ہم مسلک اہلحدیث کہتے ہیں،اگر اس مسلک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اکابرین اہلحدیثؒ کی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے،جو اپنے وقت کے صاحب کشف وکرامات اور صاحب نسبت صوفی بزرگ تھے۔
پروفیسر محی الدین (روز نامہ اوصاف) کی ر ائے:۔ معروف کالم نگارپروفیسر محی الدین(روزنامہ اوصاف) میں لکھتے ہیں:۔
’’ عام طور پر اہلحدیث جن کو غیر مقلد کہا جاتا ہے ،اور جو وہا بی کے نام سے بھی پکارے جاتے ہیں ،انکو تصوف اور روحانیت سے نابلد کہہ کر روحانیت اور تصوف کے مخالف بتائے جاتے ہیں ،مگر یہ بات ان پر تہمت ہے،عملاً حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔غزنو ی علماء اکرام تصوف اور روحانیت سے گہرا شغف رکھتے تھے،روحانی سلسلہ کے آخری مدارج طے کرنے والے پروفیسر ابوبکر غزنوی تھے،جو داتادربار کیساتھ بالکل ساتھ ہی اہلحدیث مدرسہ کے منتظم بھی تھے ،اور شیش محل روڈ پر واقع مدرسے کے حال میں خطبہ جمعہ دیا کرتے تھے،آپ کے خطبہ میں اکثر اہل علم ،دانشور اورو کلاء آتے تھے۔پینٹ کوٹ پہنے والا یہ پروفیسر بہت بڑا صوفی اور روحانیت کی دنیا کا واضح کردار تھا،انکے آباؤ اجداد اسی تصوف پر کاربند تھا،جو شریعت کا پابند تھا۔مشرقی پنجاب میں لکھوی خاندان کو بڑی شہرت حاصل تھی ،مولانا حافظ محمد لکھوی نے پنجابی زبان میں تفسیرقران لکھی،اور انکی دوسری کتاب ’’حوالِ آخرت ‘‘ہے،اور بھی کچھ تصنیفات ہیں ،اور یہ سب روحانی ور دینی مفہوم کی پنجابی زبان میں ہیں ،یہ خاندان تصوف اور روحانیت پر کار بند رہا ہے‘‘۔
اکابرین اہلحدیثؒ کے ساتھ ایک بڑی زیادتی یہ ہوئی کہ اولاً تو انکی سوانحیات مرتب نہیں ہوئی ہیں ،اور جو مرتب کی گئی ہیں ،ان میں اکابرین اہلحدیثؒ کا جو تعلق تصوف وسلوک کیساتھ تھا ،اسے نہ صرف مبہم کر کے پیش کیا گیا،بلکہ ایک حد تک تو اسے پس پردہ کردیاگیاہے،اور یوں نئی پود کے پاس افراط وتفریط پر مبنی مولانا کیلانی صاحب کی’’ شریعت وطریقت ‘‘ تو آ گئی،مگر اکابرین ؒ کا تصوف اسلامی نہ آسکا۔
مولانا ابوالکلام احمد دہلوی کا اہم مکتوب اور مولانا محمد اسحاق بھٹی کا تبصرہ:۔عموماً علمی حلقوں میں یہ بات کہیں جاتی ہے کہ اکا برین اہلحدیث کا جو تعلق تصوف سلوک کیساتھ تھا ،وہ آج کے سلفی حضرات سے مخدوش ہو چکا ہے،گو کہ اس بات میں حقیقت ضرور ہے مگر پوری طرح اس بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا،کیونکہ روحانیت کا یہ سلسلہ اہل حدیث حضرات میں آج بھی کہیں ٹمٹماتا ہوا نظر آتا ہے معروف سوانح نگار مولا نا محمد اسحاق بھٹی نے ’’ تذکرہ مولاناغلام رسول قلعویؒ ‘‘ میں مولانا ابو الکلام احمد دہلوی کے ایک مکتوب کا ذکر کیا ہے،مولانا ابو الکلام احمد دہلوی صاحب دہلی میں رہتے ہیں ،استاذ الاساتذہ ہیں ،اور پرانے لوگوں میں سے ہیں ،اس خط میں تصوف کے متعلق مولانا ابو الکلام احمد دہلو ی صاحب لکھتے ہیں
’’سلفیوں کی بابت دشمنوں کی اڑائی ہوئی ہوائی ہے،کہ انھیں علمِ باطنی میسر نہیں ،وہ اہل ظواہر ہیں،طریقت نہیں جانتے ،صرف شریعت سے واقف ہیں ۔واشگافانہ الفاظ میں کہوں تو انکے نزدیک یہ لوگ تصوف سے نابلد ہیں ،میرا ارادہ ہے کہ ان خطوط کو شائع کر دوں(مولانا غلام رسول قلعویؒ کے مکتوبات کی طرف اشارہ ہے) اور اس پر ایک مبسوط مقدمہ لکھوں تا کہ دنیا با خبر ہو جائے کہ اہلحدیث کے یہاں علم طریقت و تصوف ہے،مگر وہ مبنی بر کتاب وسنت ہے ،اور اہل حدیث کو مطعون کرنے والوں کو بتایا جائے کہ
لذتِ بادہ ناصح کیا جانے

ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں​​

ہمارے علم طریقت کی چاشنی کتاب وسنت کے مخلوطہ سے وجود میں آئی ، اوروں کے یہاں انحراف ہے اور زیع وضلالت۔ہداہم اللہ للصراط امستقیم۔(تذکرہ غلام رسول قلعوی صفحہ ۴۸)
اسی مکتوب پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا محمد اسحاق بھٹی لکھتے ہیں
’’مولانا ابولکلام احمد نے اہل حدیث کے علم تصوف اور علم طریقت کا جس انداز میں ذکر فرمایا ہے،وہ بالکل صیح ہے،اس باب میں مولانا کے جذبات قابل قدر ہیں ،انھیں اس موضعوں پر کھل کر لکھنا چاہئے،اور اہل حدیث علماء کی کرامات اور انکی قبولیت دعا کے واقعات کی تفصیل بیان کرنی چاہئے، اس سلسلے میں بہت عرصہ ہوا مولانا عبدالمجید سوہدریؒ مرحوم مغفور نے کچھ کام کیا تھا،( بھٹی صاحب کا یہ اشارہ کرامات اہلحدیث کی طرف ہے )اور بڑی عمدگی سے بعض اہلحدیث علمائے کرام کی کرامتوں کاتذکرہ فرمایاتھا،اصحابِ کرامات علمائےاہلحدیث کی اس فہرست میں انھوں نے حضرت سید عبد اللہ غزنویؒ ،مولاناغلام رسول قلعویؒ اور قاضی سیلمان منصورپوری رحہم اللہ کے اسمائے گرامی درج فر مائے ہیں‘‘۔
’’مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب’’برصغیرمیں علمائے اہلحدیث کی آمد‘‘میں فرماتے ہیں:۔
قدیم علمائے برصغیر میں سے شیخ فرید الدین پاک پتنؒ ،شیخ نظام الدین اولیاء ؒ ،شیخ حسین بن احمد ؒ بخاری جہاں گشت اوچ شریف ،حضرت مجدد الف ثانی ؒ شیخ احمد سرہندی،شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ ،شیخ علی متقیؒ ،شیخ عبد الوہاب متقی ؒ ،حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور انکے فرزند گرامی ،مرزا مظہر جانجناں ؒ ،حضرت شاہ محمد اسحاق ؒ دہلوی،میاں سید نذیر حسین دہلویؒ ،امرتسر کے خاندان غزنویہ کے علمائے اکرام ،لکھوی خاندان کے علمائے عالی قدر ،روپڑی اصحاب علم،حضرت حافظ عبد المنان وزیر آبادی ؒ مولنا غلام رسول قلعویؒ قلعہ میہاں سنگھ والے وغیرہ بے شمار علمائے اہلحدیث نے علوم کی تشریح وا شاعت کیلئے بڑھ چڑھ کر خدمات حاصل کی۔رحم اللہ تعالیٰ‘‘۔(ص۳۶۶)
یوں تو فرقہ احمدیہ سے لیکر روافض تک سب اپنا تعلق صوفیاء عظام سے ظاہر کرتے ہیں ،مگر حقیقت یہ ہے کہ تصوف اسلامی صرف اور صرف اہلسنت ولجماعت میں ہے اور پاک وہند میں اکثر صوفیاء کا تعلق دو ہی مسالک( حنفی و اہلحدیث) سے ہے۔روا فض و قادیانی اور دیگر گمراہ بدعتی فرقوں میں نہ کوئی صوفی گزراہے،اور نہ ہی پیدا ہو سکتا ہے،کیونکہ اہل بدعت کے سینے اس نور کو قبول نہیں کر سکتے ،اس معاملہ اکثر لوگ (با وجہ لاعلمی) دھوکا کھا جاتے ہیں۔
اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مسلک اہلحدیث اور اہل حناف جہاں علوم ظاہر وباطنی میں ایک ہی استاد ( شاہ ولی اللہؒ ) کے شاگرد کے ہونے کے ناطے سے ( فروعات کے اختلافات کے علاوہ)کوئی بڑا اختلاف نہیں رکھتے تھے،وہاں تصوف وسلوک کے مسلۂ پر دونوں مکتبہ فکر میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں تھا ،بلکہ دونون مکتبہ فکر کے اکابرینؒ کا تصوف سلوک سے گہرا تعلق وشغف تھا،اور یہ شخصیات کوئی معمولی درجہ کے لوگ نہ تھے،بلکہ انکا شمار آئمہ و اساتذہ میں ہوتا ہے۔اہل حناف کی اس موضعوع پر بڑی جامع اور مدلل تصنیفات موجود ہیں ،اور اکا برین اہلحدیث کی بے شمار تقریریں اور تحریریں نہ صرف اس لگاؤ کو ظاہر کرتی ہیں ،بلکہ باوجود مسلکی اختلاف کہ تصوف کے معاملے میں ایک دوسرے کے شاگرد بھی ہیں آلبتہ اہل حناف کو اس معاملہ میں بر تری ضرور حاصل ہے،کیونکہ بلند ترین مناصب اولیاءِ کاملین کا تعلق زیادہ تر فقہ حنفی سے ہے۔ جس طرح جہالت کی تند وتیز آندھیوں نے جہاں ان دونوں مکتبہ فکر کے درمیان باقی معملات میں ایک دیوار کھڑی کی،وہاں بدقسمتی سے تصوف وسلوک کے مسلئے پر بھی انکا اختلاف وجود میں آ گیا ،اور ایک ظلم یہ بھی ہوا کہ دونوں مکتبہ فکر کے درمیان شدید انتشار پیدا ہوا اور کئی گرووں میں تقسیم ہوگئے،اور یہ اختلاف فروعات سے لیکر عقائد تک کا ہے،اہل حناف نے تو اس موضعوع پر زور قلم بھی صرف کیا ہے ۔اس سلسلہ میں مفتی سعید احمد خان صاحب کی تصنیف ’’ دیوبند کی تین دھراڑیں ‘لائق تحسین ہے۔عہد حاضر کے اکثریت اہل حدیث حضرات تو اس کار خیر سے مرحوم ہی نظر آتے ہیں البتہ البتہ گاہے گاہے تقریر وتحریر میں اہل دانش و بینش کی مذمت ضرور ملتی ہے مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب اپنے ہم مسلک احباب کو اپنے اکا برین سے بے رخی وناقدری برتنے پر بطورِ تنبیہ لکھتے ہیں:۔
’’افسوس اہلحدیث حضرات اس اہم نقطے کو لائق التفات نہیں گردانتے ،ان میں سے بعض حضرات اس قسم کے کام چھوڑ آجکل صوفیاء کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ،انکا کہنا ہے کہ انھوں نے اسلام کی کوئی خدمت نہیں کی اور یہ غلط کردار لوگ ہیں ۔
ممکن ہے کہ انکا واسطہ ایسے ہی لوگوں سے پڑا ہو،جنھیں صوفی کہا جاتا ہو،اور وہ غلط کردار ہیں ،حلانکہ غلط کرداری کسی صوفی کیساتھ مختص نہیں ،اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ، ہمارا واسطہ کسی غلط کردار صوفی سے نہیں پڑا،ہمارا تعلق ہمیشہ نیک سیرت صوفیاء اور عالی مرتبت اہل علم سے رہا ہے۔‘‘( بزم ارجمند ص۲۸)
یہ نیک سیرت اور عالی مرتبت صوفیاء کون ہیں انشاء اللہ آپ اس کتاب میں ایسے ہی عالی مرتبت صوفیاء اہل حدیث کا تذکرہ ملے گا۔
پروفیسر ڈاکٹر سید ابوبکر غزنوی کی تحصیل السلوک کیلئے دعوتِ فکر:۔ بھٹی صاحب کی طرح پروفیسر ڈاکٹر سید سید داؤد غزنویؒ بھی اپنے ہم مسلک حضرات کو تصوف وسلوک کی طرف یوں رہنمائی دیتے ہیں:۔
مولانا سید داؤد غزنوی ؒ مسلک اہلحدیث کی قد آور شخصیات میں سے تھے ۔اس بحث کو آپ کے ان افکار وخیالات پر ختم کرتے ہیں جو مولانا حنیف ندوی ؒ نے بیان فرمائی ہیں۔آپ فرماتے ہیں:۔
’’ تضاد کی تیسری صورت جس سے مولانا ( سید داؤد غزنویؒ )از حد شاکی اور پریشان تھے۔جماعت اہلحدیث کے مزاج کی موجودہ کفیت ہے،مولانا کے نقطہ نظر سے اسلام چونکہ تعلق باللہ اور اسکے ان انعکات کا نام ہے،جو معاشرہ اور اور فرد کی زندگی میں لطائف اخلاق کی تخلیق کرتے ہیں۔اسلئے تحریک اہلحدیث کا اولین مقصد یہ ہونا چاہئے کہ جماعت میں محبت الہی کے جذبوں کو عا م کرے۔تعلق باللہ کی برکات جو پھیلائے،اور اطاعت زہد واتقاوخشیت اور ذکر وفکر کو روا ج دے،لیکن ہماری محرومی و تیرہ بخشی ملاحظہ ہو کہ عوام تو عوام خواص تک تصوف وا حسان کی لذتوں سے نا آشنا ہیں۔حلانکہ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ خواص تو خواص ہمارے عوام تک زہد و ورع کا بہترین نمونہ سمجھے جاتے تھے۔آپ پوچھے گے مولانا مرحوم کے نزدیک ان تضادات سے چھٹکارا پانے کا طریق کیا تھا۔؟ بارہا یہ مسئلہ مولانا کے ہاں زیر بحث آیا ۔انکی اس سلسلہ میں جچی تلی رائے یہ تھی کہ ہمیں تعلیم وتربیت کے پورے نظام کو بدلنا چاہئے،کہ جو جماعت اہلحدیث کی تعمیر کے لئے زیادہ ساز گار ثابت ہو سکے۔اور اسکے فکر وعقیدہ کو ایسی استوار بنیادوں پہ قائم کر سکے، جن میں تضاد اور الجھاؤ کی خلل اندازیاں نہ پائی جائیں ۔جو ان میں زندگی کی نئی روح دوڑا سکے‘‘۔( حضرت مولانا داؤد غزنوی ص ۳۳۶ )
آپکے فرزندارجمند سید ابوبکر غزنوی ؒ فرماتے ہیں:۔
’’بعض لوگو ں نے حضرت شاہ صاحبؒ ( شاہ اسماعیل شہیدؒ )کی کتاب ’’ تقویۃ االایمان ‘‘ ہی پڑھی ہے،کبھی صراط مستقیم بھی دیکھو،کبھی عبقات بھی پڑھو،وہ بہت لطیف آدمی تھے،تجلیات سے آگاہ،وہ انوارسے آگاہ،سلوک کے مقامات سے آگاہ،اللہ کی محبت اورمعرفت کے تمام رموز سے آگاہ۔‘‘
اورکبھی یوں دعوتِ فکردیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’ایک اور نصیحت تمھیں اور کرتاہوں ،روزانہ کچھ وقت اللہ بھی کیا کرو،میں نے بعض لوگوں کو دیکھا ہے،کہ ہر وقت جدل وبحث میں لگے رہتے ہیں ،اور اللہ کے ذکر سے یکسر غافل ہیں،ہمارے اسلاف تو ایسے نہ تھے،وہ سب ذاکر تھے،انکی زبانیں ذکر سے رکتی نہ تھی۔‘‘
( جماعت اہل حدیث سے خطاب)
یہ بات ذہن میں رہے پروفیسر غزنویؒ کا یہ خطاب ماموں کانجن کے مقام پر جماعت اہلحدیث کانفرس سے فرمایا گیا ہے ۔جس میں اس وقت کے مسلک اہلحدیث کے رہنما موجود تھے،اور یہ دعوت فکر آج بھی مسلک اہلحدیث کیلئے مشعل راہ ہے۔

Pages

ٹوٹل پیچ ویو

Powered by Blogger.

کچھ میرے متعلق

بلاگر حلقہ احباب

وزٹر

پاک اردو انسٹالر

وزیٹر

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
کاپی‌رائٹ © علم وعرفان - جملہ حقوق محفوظ
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
اردو ترجمہ: اسد | اردو محفل | Proudly powered by Blogger